محبت
ہم دونوں دو جسم ایک جان بنے ہوئے تھے۔ حقیقت میں بھی بالکل ایسا ہی تھا ۔ کمرے میں صرف چدائی سے پیدا ہونے والی آوازیں تھپ تھپ اور میرے سامنے جھکی ہوئی ڈوگی سٹائل میں چدنے والی کے منہ سے نکلنے سسکاریاں جاندار بنا رہی تھیں۔
اس کے حسین اور سیکسی جسم کو میں آج تقریباً دو سال سے اپنے انھی ہاتھوں سے مسل کر اپنے ہونٹوں میں لے کرچوس چوس کر شادی شدہ عورت جیسا بنا دیا تھا۔
یہ کام ہمایوں بھائی(عرف مونی جی) کو کرنا چاہیے تھا لیکن وہ اپنے ڈش سیٹلائیٹ کے کام کے فلاپ ہو جانے کی وجہ سے آج کل دبئی میں کسی منڈی میں کام کر رہے تھے۔
پاس ہی بیڈ پر ہم دونوں کے اس جائز رشتے کی بدولت پیدا ہونے والے بچہ خاموشی سے سو رہا تھا۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد ہےجب میں فرزانہ باجی کو تسلی کروانے کے بعد اپنے کمرے میں داخل ہوکر سونے کے لیے لیٹا تھا۔
مجھے محسوس ہوا کہ کوئی بیڈ پر آکر میرے بالکل قریب بیٹھا اور پھر میرے ٹراوزر کے نالے کو کھول کر میرے مرجھائے ہوئے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔کچھ دیر میرے لنڈ سے کھیلنے کے بعد ایکدم سے اپنےمنہ میں لے لیا۔ ویسے بھی باجی فرزانہ کو چودے ہوئے چند منٹ گزر چکے تھے اور اوپر سے باجی فرزانہ کے برعکس اس انجان ہستی نے اپنے منہ میں جوکہ بے حد گرم تھا، میں لے کر میرے لنڈ میں دوبارہ سے جان ڈال دی تھی۔
میں اپنی آنکھیں بند کیے چند لمحے اس نئے سرور ، جوکہ مجھے میرے کالج کے دوست ہمایوں کی بہن تانیہ نے محسوس کروایا تھا، میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک یہ سرور ختم ہوگیا اور میں اپنی آنکھیں کھول کر اندھیرے میں اپنے اوپر آ چکے جسم کو دیکھنے لگا۔
انجان ہستی کا ہاتھ تیزی سے نیچے آیا اور میرے کھڑے ہوچکے لنڈ کو پکڑ کر اپنے گیلی ہوچکی پھدی پر رکھ کر چند لمحے رگڑنے کے بعد آہستہ آہستہ اپنی گرم پھدی میں لینے لگی۔ میرا ذہن آہستہ آہستہ جاگنے لگا۔ جیسے ہی میرا سارا لنڈ پھدی کے اندر غائب ہوگیا تبھی میری دوسری بہن جس کی کچھ مہینے پہلے شادی ہوئی تھی ، کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر چپک گئے۔ آپی طاہرہ ، یہ نام میرے ذہن میں صرف اسی وجہ آیا تھا۔
وجہ نمبرایک ، چند دنوں سے پھر سے آپی کے گھر والے اسے بچہ پیدا کرنے کے لیے تنگ کر رہے تھے یا وہ میرے بہنوئی کو دوسری شادی کی اجازت دے دے جس کی وجہ سے آپی تنگ ہوکر آج ہی یہاں پہنچی تھیں۔
وجہ نمبر دو، گھر میں اس وقت ہم تینوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا، ابو امی اور بڑا بھانجا تینوں میری کزن کی شادی میں گئے ہوئے تھے مہندی کا فنکشن لیٹ نائٹ ہونا تھا جس کی وجہ سے ان تینوں کو وہیں رہنا پڑا تھا۔ جبکہ آپی کو شادی پر انوائیٹ نہیں کیا تھااسی لیے وہ یہیں پر تھیں۔
وجہ نمبرتین: آپی تھکی ہوئی تھی اسی وجہ سے وہ کھانا کھا کر جلدی ہی سو گئی تھیں جس کی وجہ سے میں اور باجی فرزانہ (بیس سالہ مطلقہ)ایک دوسرے کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہی کے بیڈروم میں ان کے بیڈپر ہمیشہ کی طرح چدائی کرنے میں مصروف ہوگئے تھے۔ یہ سلسلہ باجی فرازنہ کی شادی کے دوسرے سال سے ہی شروع ہوگیا تھا جب انہیں میری احتلام سے بھری شلوار کو دھونا پڑا تھا۔(فلحال کہانی کی طرف آتا ہوں) شاید تبھی آپی طاہرہ ہم دونوں کو دیکھ کر خود کو روک نہ پائی اور میرے کمرے میں بنے باتھ روم میں خاموشی بیٹھی رہیں اور جب میں سونے کے لیے آیا تو اب یہ سب کچھ ہونا شروع ہوگیا۔
میں نے اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پہ رکھ کر انہیں چوسنا شروع کر دیا۔۔۔ساتھ ہی میں اپنے دونوں ہاتھ نیچے لے جا کر ان کے چوتڑوں کو مسلنے لگا۔۔۔
اس کے گول مٹول ممے میرے سینے پر دبے ہوئے تھے۔۔۔صاف پتہ چل رہا تھا کہ اس نے نیچے کچھ نہیں پہنا ہوا ہے۔۔۔
میں نے اس کی شلوار کو تھوڑا نیچے اتار کر اپنے ہاتھوں سے اس کے چوتڑوں کو مسلنا جاری رکھا۔۔۔
میں بس یہی چاہتا تھا کہ جیسے میری بہنیں میرا خیال رکھتی ہیں ویسا ہی میں ان کا خیال رکھ سکوں ۔ بے شک باجی ہمارے ناجائز رشتے سے پہلے بھی میرا بے حد دھیان رکھتی تھی لیکن نئے رشتے کی بدولت وہ بہن سے بڑھ کر بیویوں جیسا رویہ اپنائے ہوئے میرا بے حد خیال رکھتی تھیں ۔ آپی طاہرہ تو میرے بچپن سے اب تک ہر بات کا خیال رکھتی آ رہی تھی ہر چھوٹی چھوٹی ضرورت کو پورا کرتی تھی اور میری چھوٹی چھوٹی خوشی کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی تھی۔
میرے دماغ نے مجھے آپی کی کمی کا احساس دلایا تو میرا جسم خود بخود آپی طاہرہ کے ہر عمل کا ردعمل دینے لگا تھا۔
آپی طاہرہ کا جسم عام عورتوں سے ہٹ کر تھوڑا سا موٹا تھا، مطلب بھدا نہیں تھا لیکن سلم بھی نہیں تھا۔ آپی کے جسم کا ہرایک انگ ہیلتھی تھا جس کی وجہ سے انہیں اس کے سسرال والے طعنے دے دے کر ان سے گھر کے سارے کام کروا لیتے تھے۔ ان کی دیورانیاں اور نند بس خاموشی سے ان کا تماشا دیکھا کرتے تھے۔ خیر۔۔۔
ان کے پورے چہرے کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔
اپنے دونوں ہاتھ میں نے آپی کے مموں پر جما دیے۔۔۔ میرے ہاتھ بڑی مہارت سے آپی کے بڑے بڑے مموں پرحرکت کر نا شروع ہوچکے تھے۔ جبکہ آپی اب آہستہ آہستہ اپنی موٹی گانڈ کو اوپر نیچے کرنا شروع کر دیاتھا جس کی وجہ سے ان کی چدائی شروع ہوچکی تھی۔
باجی فرزانہ کے سیکھائے ہوئے گر آج مجھے آپی پر آزمانے تھے۔ میں ایک کے بعد ایک کاری گری آپی پر آزمانے لگا۔ ہاتھوں سے آپی کے گداز مموں کو محسوس کرلینے کے بعد میں نے باری باری دونوں مموں سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے ان کو چوسنے چاٹنے لگا تھا جب کہ نیچے سے میں اب کمر ہلا ہلا کر آپی طاہرہ کے جھٹکوں کا جواب دینے لگا تھا۔
مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ آپی کی پھدی میرے لنڈ کو آہستہ آہستہ جھکڑ رہی ہے اور اس میں رستا ہوا پانی میرے لنڈ کی ٹوپی کو بھگوتا ہوا میرے ٹٹوں تک بہتا ہوا آ رہا ہے۔
آپی کا آرگیزم باجی فرزانہ کی نسبت زیادہ تھا لیکن جلد ہی وہ مجھ سے لپٹی ہوئی مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا۔
میں نئی پوزیشن میں انہیں چودنا شروع کر چکا تھا۔ میں آپی کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان اپنا لنڈ ان کی ریشم جیسی بالوں سے صاف پھدی میں ڈالے ہوئے تیزی سے جھٹکے لگاتا ہوا انہیں پانچ منٹ تک لگاتار چودتا رہا۔۔۔میری رفتار کے ساتھ ساتھ ا ٓپی کی سسکیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔۔۔میں نے ان کے مموںکو اپنے منہ میں بھر کر چوسنا شروع کردیا۔ میں اپنی پوری طاقت سے گھسے مارنے لگا۔۔۔
آپی طاہرہ کی بڑھتی ہوئی سسکیاں بتا رہی تھیں کہ وہ دوبارہ منزل کے قریب ہے۔۔۔
میں جانتا تھا کہ آپی کا مجھ سے ایسے اچانک چدنا اپنی اہم ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ہے لیکن میں چاہتا تھا کہ آپی خود اپنے منہ سے اپنی طلب کا اظہار کرے۔
ہوا بھی یوں ہی، آپی کے فارغ ہونے کے دوران آپی کے منہ سے ٹوٹے ہوئے الفاظ ان کی شادی شدہ زندگی کو بچانے کے لیے اپنے ہی بھائی کی ضرورت پڑی تھی،۔۔
کچھ دیر اور گھسے مارنے کے بعد میری طاقت بھی جواب دیتی گئی۔۔۔
میں نے آخری گھسہ پوری جان سے مارا تو میرا لن جڑ تک اندر گیا اور لن کی ٹوپی بچہ دانی میں گھس گئی۔۔۔اور میرے لن نے اس کی بچہ دانی پر منی کی برسات کر دی۔۔۔اس کی بچہ دانی پر جیسے ہی میرے گرم گرم منی کا چھڑکاؤ ہوا۔۔۔وہ بھی کانپتے ہوئے شاید چھوٹ گئی۔۔۔فارغ ہونے کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹ کر سو گئے۔۔۔
اگلی صبح حسب معمول میری ہی آنکھ پہلے کھلی ابھی تک آپی ننگی ہی مجھ سے جڑ کر سو رہی تھیں ۔ میری نظر ان کے سراپے میں کچھ دیر تک کھوئی رہی پھر جب میری نظر ان کی ریشم جیسی پھدی پر پڑی جس کے دونوں لب ایک دوسرے سے جدا تھی اور شاید رات کی چدائی کیوجہ سے سوج چکے تھے ان دونوں لبوں سے نکلے ہوئے میرے لنڈ کے کم رس ، کو جمے ہوئے چند گھنٹے ہوچکے تھے۔
میں نے اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹائیبل سے آئل نکال کر چند قطرے آپی طاہرہ کی پھدی پر ٹپکائے اور ایک ہاتھ سے اپنے لنڈ پر بھی ہلکی سی مالش کرکے بغیر آواز کیے آپی طاہرہ کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان میں آ کر اپنے کھڑے ہوچکے لنڈ کو آہستہ آہستہ آپی طاہرہ کی تیل کی مدد سے گیلی ہوچکی پھدی میں اتارنے لگا۔
میں مسلسل آپی کے نپلز چوس رہا تھا۔۔۔اور آپی آہہہ۔۔۔آہ۔آہہہ۔۔۔کرتے ہوئے مزے اور مستی میں سر کو ادھر ادھر ہلا رہی تھی۔۔۔
کمرے میں تھاہ۔۔۔تھپ۔۔۔تھاہ کی آوازیں گونج رہی تھیں۔۔۔میں اپنا لنڈ آپی طاہرہ کی پھدی میں ڈالے پوری رفتار سے اسے چود رہا تھا۔۔۔
اور یہ آوازیں میرے اور اس کے جسم کے ٹکرانے سے پیدا ہورہی تھیں۔۔۔
میں: میں بہت خوش قسمت بھائی ہوں جو اپنی دونوں بہنوں کی دنیاوی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب رہتا ہوں۔ ۔۔
آپی طاہرہ: بس میری یہ آخری خواہش پوری کر دو تاکہ میں بھی اپنا سر اٹھا کر بول سکوں ۔۔۔ یہ لو اپنے بیٹے کا وارث۔۔۔ آئیندہ طلاق جیسے منحوس لفظ میرے سامنے نکالنے کی جرات کوئی بھی نہ کرے۔
میں: اور۔۔۔ بانجھ کا طعنہ بھی۔۔۔
آپی: ہاں ۔۔۔ بالکل۔۔۔
میں چند مزید جاندار جھٹکوں کے بعد آپی طاہرہ کے ساتھ ہی ان کی پھدی میں ہی فارغ ہونے لگا۔ فارغ ہونے کے بعد میں ان سے لپٹے ہوئے ان کے گال کو چومتے ہوئے بولا
میں: میں آپ کے رات کے فیصلے سے بے حد خوش ہوں۔۔۔ تھینکس
آپی کے چہرے پر شرم کی لالی تیر گئی۔ کچھ عرصے میں جب جب ہم دونوں کو موقعہ ملتا ہم دونوں بھائی بہن اکیلے میں بس چدائی کرتے لیکن اس راز کا علم ہم دونوں نے باجی فرزانہ کو بھی نہیں ہونے دیا۔ ایک دن کسی وجہ سے مجھے آپی طاہرہ کو ان کے سسرال چھوڑنے اچانک جانا پڑا۔ واپسی پر آپی طاہرہ کی اکلوتی شادی شدہ نند میرے ساتھ ہی اپنے سسرال کے لیے چل پڑی۔
آپی نے مجھے رہنے کے لیے کافی مرتبہ کہا لیکن ان کے سسرال میں رہنا باتیں بنوانے کے مترادف تھا اس لیے مجھے وہاں سے آنا پڑا۔
کافی دیر بعد جب وہ تیار ہو کر آئی تو میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔۔اس نے ہلکے آسمانی رنگ کی پتلی سی قمیض پہنی ہوئی تھی۔جس کے نیچے نیلے رنگ کا برا صاف نظر آ رہا تھا کہ جس میں اس کے چھوٹے چھوٹے ممے قید تھے۔۔۔ (شاید اس کا شوہر بس ٹھوکا ٹھاکی پر توجہ دیتا تھا)۔۔۔ اور قمیض کے نیچے اس نے سرخ رنگ کی ٹائیٹس پہنی ہوئی تھی اور اس ڈریس میں تانیہ بہت بھلی لگ رہی تھی۔۔
گھر سے دور آکر میں نے ایک نظر تانیہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس ڈریس میں تم بہت گریس فل لگ رہی ہو۔۔تو وہ میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔آپ کو ایسا لباس پسند ہے ؟ تو میں اس سے بولا۔۔۔ آپ جو بھی لباس پہن لو وہی اچھا ہو جاتا ہے۔۔۔۔(میں نے تانیہ کے ساتھ فری ہونے کا اس لیے فیصلہ کیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ کسی طریقے سے وہ میری آپی کے ساتھ ڈھنگ سے بات کرلیا کرے۔)
میں: میں نے کافی مرتبہ آپی کو دیکھا ہے کہ وہ پرفیوم چیک کرنے کے لیے اپنے ہاتھ پر پرفیوم سپرے کرکے چیک کرتی ہیں اور جس کی خوشبو مونی بھائی کو پسند آئے وہی لگا لیتی ہیں۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں معاملہ الٹا ہے۔(میں نے جان بوجھ کر دکھتی رگ پر پاوں رکھا تھا کچھ دن پہلے آپی نے اپنے گھر کے ہر فرد کے متعلق تفصیل سے مجھے بتایا تھا)
تانیہ:میں نے اپنی زندگی میں جس شخص کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی تھی۔۔۔ اس کا نام واجد ہے۔۔۔ لیکن اب میں نے زندگی بھر جس شخص سے نفرت کرتی رہوں گی اس کا نام واجد ہے۔
میں: لیکن ایسا کیوں؟ انہوں نے ایسا کیا کر دیا؟
تانیہ:جیسا کہ تمہیں معلوم ہے ناں۔۔۔ واجد کی اپنی گاڑی ہے اور وہ اوور ٹائم کے طور پر رووٹ پرمٹ بھی لے رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ صبح سکول اور کالج کے بچوں اور لڑکیوں کو ڈراپ کرنے جاتے ہیں وہیں ان میں سے کوئی لڑکی ان سے پہلے پہل گپ شپ کرتی تھی پھر یہ گپ شپ محبت میں تبدیل ہوئی اوراب وہ شاید دوسری شادی کرلیں۔
(میں سمجھ چکا تھا کہ تانیہ آپی طاہرہ کے ساتھ بدتمیزی کیوں کرتی تھی جب بھی وہ آپی کو خوش خرم دیکھتی تھی ان کو اپنی برباد زندگی نظر آتی تھی جس کی وجہ سے آپی کو وہ تنگ کرکے واجد کا غصہ ان پر نکالتی تھی)
میں نے چلتے چلتے تانیہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا: اگر واجد بھائی تمہیں دھوکہ دے کر کسی دوسری لڑکی سے محبت رچا سکتے ہیں تو تم بھی اپنا دکھ کسی اپنے کے ساتھ بانٹ لیا کرو۔
تانیہ گہری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی: ڈر لگتا ہے کہ۔۔۔ کہیں یہ راز۔۔۔
میں فوراً بولا: میں نے کون سا کہا ہے کہ تم ہر کسی سے دکھ بانٹو۔۔۔ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ (ہاتھ کو ہلکا سا دباتے ہوئے) کسی اپنے کے ساتھ دکھ درد بانٹ لیا کرو کسی خوبصورت پرسکون جگہ چند لمحے کندھے پر سر رکھ اپنا دکھ یا غصہ پیار کی صورت میں نکال دیاکرو۔
تانیہ: لیکن ۔۔۔
میں فوراً اس کی بات کاٹ کر بولا: جیسے وہ والی جگہ ۔۔۔ چلو آج میں ہوں نا۔۔۔ وہیں چلتے ہیں۔
میں تانیہ کا ہاتھ تھامے راستے سے ہٹ کر درختوں کے جھنڈ کی طرف لے گیا۔ جہاں ہر سو خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
ہم دونوں ایک صاف جگہ دیکھ کر ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھ چکے تھے۔ میں نے ہی پہل کرتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں دئیے ہوئے اپنی گود میں رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرا بازو اس کی مخملی نازک کمر کو تھام کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
میں: جی جناب
تانیہ شاید کچھ کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی لیکن اسے الفاظ مل نہیں رہے تھے۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد تانیہ نے اپنا سر میرے کندھے پر رکھ جیسے ہی بولنا شروع کیا۔ تب ہی دو کتے ایک دوسرے کے آگے پیچھے کبھی تیزی سے تو کبھی رک کر ایک دوسرے پر حملہ کررہے تھے ۔ لیکن جلد ہی یہ حملے ڈوگی سیکس میں تبدیل ہوگئے۔ تانیہ تو آنکھیں بند کرلیتی جب میں اچانک تانیہ کی طرف دیکھتا تو۔
میرالنڈ کتوں کی چدائی سے زیادہ تانیہ کے جسم سے نکلنے والی شہوت کی گرمی اور کپڑوں سے محسوس ہونے والی خوشبو نے جگا دیا تھا۔ تانیہ بخوبی میرے لنڈ کی لمبائی کو دیکھ رہی تھی جو وقتاً فوقتاًبڑھتی جا رہی تھی۔
میں: ایک وقت تھا تم بھی۔۔۔ میرے حسن اور لاابالی طبیعت کی وجہ سے میرے پیچھے پڑی تھی لیکن آج ہم دونوں کے پاس وقت ہے، جگہ بھی ہے لیکن ۔۔۔
تانیہ میری بات سن کر اپنی پتلی انگلیوں کی مدد سے میرے کھڑے ہوچکے لنڈ کو شلوار کے اوپر سے ہی سہلانے لگی۔
تانیہ نے اپنا سر میرے کندھے سے اٹھایا اور اپنے ہونٹ جن پر سرخ لپ سٹیک لگی ہوئی تھی ان کو میرے ہونٹوں کے ساتھ ملا دیا۔ اُف اس کے ہونٹوں میں ایک عجیب سی چاشنی تھی اور اس کے منہ سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی۔۔۔اس کے کنوارے جسم کو پانے کی آرزو میں۔۔۔۔۔ میں پاگل ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ ۔ سو میں اس کے ہونٹوں کی چاشنی پیتا گیا پیتا گیا ۔۔۔۔طویل کسنگ کے بعد ۔۔۔ میں اس کی مخملی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا تم ا بھی بھی بمب ہو۔۔۔تو وہ اسی لہجے میں کہنے لگی ۔۔ میں کہاں سے بمب ہوں؟
میں نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کی پتلی قمیض کو پکڑ کر اوپر اٹھایا اور اس کے مموں کو اس کی سرخ برا کے اوپر سے تھام کر بولا: یہاں سے، (پھر بولا) اس موٹی گانڈ سے، اوراپنی اداوں سے
تانیہ:اورتمہارا لن اتنا شاندار ہے کہ اگر یہ ڈسچارج نہ ہو تو میں اسے ساری زندگی چوس سکتی ہوں ۔۔۔ لیکن اب نہیں چوسوں گی تو میں اس سے بولا وہ کیوں جی؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔ کیونکہ مجھے تمہارا لن ادھر (چوت میں ) چاہیئے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ اُٹھ کھڑی ہو ئی۔۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ درخت کے تنے پر رکھ کر گانڈ کو باہر کی طرف نکال دیا۔۔اور میرے طرف منہ موڑ کر بولی۔۔ ۔۔۔۔ فک می
میں تانیہ کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا ۔۔۔اور لن اندر ڈالنے سے پہلے میں نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔وہاں سامنے دونوں کتے اب ناجانے کہاں غائب ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کی چوت کو اپنے لن کے ساتھ ایڈجسٹ کر تے ہوئے بولا۔۔۔۔۔تانیہ ڈارلنگ ۔۔۔ میں اندر ڈالنے لگا ہوں۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ٹوپے کو تھوک سے تر کیا اور کچھ تھوک اس کی پہلے سے چکنی پھدی پر مل کر ایک جھٹکے سے لن کو اندر کر دیا۔۔ جیسے ہی لن اس کی تنگ چوت میں اترا ۔۔۔تو مزہ آ گیا کیونکہ تانیہ کی چوت اس انداز میں اندر سے بہت ہی تنگ اور چست ہوگئی تھی اس لیئے میرا لن پھنس پھنس کر آ جا رہا تھا۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا۔۔۔۔دوسری طرف لن اندر جاتے ہی تانیہ نے ایک طویل سسکی لی۔۔۔۔یس یس یس یس۔۔۔س۔س۔س۔س۔س۔۔۔ پھر کہنے لگی میرے ہپس۔۔۔ پکڑ کر سپیڈی گھسے مار ۔۔۔۔چنانچہ میں نے اسے ہپس سے پکڑا ۔۔۔ اور چوت کی دھلائی شروع کر دی۔۔۔ اس کی چپ چپی پھدی تنگ ہونے کی وجہ سے لن بڑے ہی سویٹ ردھم سے آ جا رہا تھا ۔۔۔اتفاق سے میرے گھسے مارنے کی ساؤنڈ اس قدر دل کش تھی کہ وہ پھدی کو مزید ٹائیٹ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔
اسی ردھم سے چوت مارر۔۔۔مجھے ان آؤٹ کی ساؤنڈ اور دھکے بڑا مزہ دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔اس لیئے۔۔۔۔۔۔اور۔۔ مار۔۔۔۔اور میں اسی انداز میں اس کی پھدی کو مارتا رہا۔۔۔۔
پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ وہ شہوت کے عروج پر پہنچ گئی۔۔۔۔
اب وہ خود بھی آگے پیچھے ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔وہ چوت میں لن لیئے۔۔۔۔ فل مزہ لے رہی تھی ۔۔۔۔کہ ہپس کو آگے پیچھے کرتے ہوئے۔۔ اچانک ہی اس نے اپنا منہ میری طرف کیا اور کہنے لگی ۔۔ اندر ہی چھوٹنا۔۔۔
میں حیرانگی سے: وہ کیوں؟
تانیہ: شاید واجد اپنے ہونے والے بچے کی خاطر دوسری شادی نہ کرسکیں۔
میں دھکے لگاتے ہوئے بولا: اگر کام نہ بنا تو
تانیہ: بے فکر رہو جانی۔۔۔ ان کا شہر والا مکان میرے نام ہے ۔ مجھے کوئی اور حربہ استعمال کرنا پڑے گا۔ پلیز اندر ہی ڈسچارج ہونا
میں: میں سمجھا تھا کہ تم کالج کے دنوں کی طرح پانی نگل جاو گی
تانیہ: آج کسی دوسرے سوراخ کے ذریعے نگل لوں گی۔
چند مزید جاندار جھٹکوں کے ساتھ ہی میں تانیہ کی چوت میں فارغ ہونے لگا۔