دسویں قسط
ایمان کو احساس ہونے پر اس نے اپنی پلکوں کو اپنی خوبصورت آنکھوں سے اٹھا کر میری طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں ایک خاموش سوال تھا۔
میں: میں تم سے شادی نہیں کر سکوں ایمان
ایمان کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی: پلیز جان۔۔۔
میں ایک مرتبہ پھر اس کے اوپر جھک کر اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا (پیشانی سے پیشانی ) ملاتے ہوئے بولا: میں اور تمہاری مما۔۔۔ یو نو۔۔۔
ایمان میرے تنے ہوئے لن کو سہلاتے ہوئے: میں سب کچھ جانتی ہوں جان۔۔۔
میں: پھر بھی تم۔۔۔
ایمان: پلیز۔۔۔ جان۔۔۔ مجھے مکمل کردو۔۔۔
میں: نہیں ایما۔۔۔۔ن
ایمان اب ہلکا ہلکا روتے ہوئے: آخر کیوں؟
میں: میں لاکھ کوشش کرلوں ۔۔۔ مجھے وہ شام بھلائے بھولتی نہیں۔۔۔ جب تمہاری مما نے۔۔۔ سب رشتے داروں کے سامنے۔۔۔ تمہارے اظہار محبت۔۔۔ کیوجہ سے ۔۔۔ میرے ابو کے بے عزتی کی تھی۔۔۔
مجھے احساس ہوا کہ میرا لہجہ ضرورت سے زیادہ ترش ہوچکا ہے اس لیے فوراً رک گیا ایمان کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی: کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے؟
میں اب اس کے جسم سے الگ ہوکر بولا: شاید کی ہو لیکن۔۔۔ چاچی کی باتیں مجھے تم سے محبت کرنے سے باز رکھتی ہیں۔۔۔ بے شک میں اس وقت بھی تم سے محبت نہیں کرتا تھا لیکن شاید دل میں کہیں دادی امی کے وعدے (میرا اور ایمان کا رشتہ بچپن میں ہی طے ہوگیا تھا دادا اور دادی اماں نے طے کیا تھا جسے اس وقت ابو، امی اور ایمان کے گھر والوں نے بخوشی مانا تھا) کے مطابق نرم گوشہ ضرور تھا ۔۔۔
ایمان کپڑے پہن لینے کے بعد بولی: مما کی باتوں کے لیے میں معذرت کرتی ہوں جان۔۔۔ پلیز سب کچھ بھول جاو۔۔۔
میں اس کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا: تم بھی تو انہی کی لاڈلی بیٹی ہو نا۔۔۔ پھر اس دن اپنی مما کو چپ کیوں نہیں کروایا تھا؟؟؟اگر چچا کو اپنے بھائی کی عزت پیار ی نہیں تھی اور ایک منہ بولی بہن (چاچی) کو اپنے بڑے بھائی اور سب سے بڑھ کر (رشتے میں) اپنی بڑی بہن کی عزت اور مان کا احترام نہیں تھا تو کیا بعد میں یہ رشتہ یا شادی ہوسکتی ہے؟ نہیں ایمان۔۔۔ میں لاکھ کوشش کرکے تمہارے لائق بن بھی جاوں تب بھی تمہاری مما مجھے اپنا بیٹا نہیں مانیں گی۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آپی اگلے دن مجھ سے بولیں: آج تم خالہ ناظمہ کے گھر چلے جانا، عبیرہ اکیلی ہوگی ، ہم سب ملنی (منگنی جیسی رسم) کیلئے جا رہے ہیں۔ عبیرہ کیلئے یہ کھانا بھی لے جانا۔
میں کچھ دیر کے بعد اپنے ہی گھر والوں کے ہمراہ گھر سے نکلا اور خالہ کے گھر پہنچ گیا وہیں سے سب عبیرہ کے سسرال کی طرف نکل گئے۔ عبیرہ اور میں نے ملکر کھانا کھایا میں پہلے ہی سکول سے آکر کھانا کھا چکا تھا۔
عبیرہ خالہ ناظمہ کے کمرے میں داخل ہوئی تو میں بھی اسی کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوگیا۔عبیرہ جھکے ہوئے بیڈ کی سائیڈ میں بنی ہوئی دراز میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی ، میں کل ایمان کی وجہ سے گرم ہوچکا تھا عبیرہ کے جھکے ہوئے ہونے کیوجہ سے اس کی نرم لیکن باہر کو نکلی ہوئی گانڈ کو دیکھ کر اس کے قریب پہنچ گیا۔ ہم دونوں کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ عبیرہ کو شاید اب احساس ہوچکا تھا کہ اس کے پیچھے میں کھڑا ہوں۔
وہ اسی انداز میں جھکی ہوئی میرے اگلے قدم کا انتظار کر رہی تھی اور میں کشمکش میں مبتلا اگلا قدم اٹھاوں یا نہیں؟
میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے عبیرہ کی رانوں کو تھام لیا، ہم دونوں کے جسم کو ایک ساتھ جھٹکا لگا۔ عبیرہ ہلکا سا پیچھے کو ہوئی جس سے اس کی گانڈ میرے اکڑے ہوئے لن پر دبتی چلی گئی۔ عبیرہ کی گانڈ کا دباو میرے لن پر محسوس ہونے سے میرے اندر کشمکش کی کیفیت کو تقریباً ختم کر گئی تھی۔
میں نے ایک ہاتھ سے عبیرہ کو تھامے ہوئے دوسرے ہاتھ کو وقتی طور پر آزاد کرتے ہوئے عبیرہ کی قمیض کے اندر داخل کرتے ہوئے عبیرہ کے مموں کو اپنے ہاتھ میں بھر لیا۔مجھے عبیرہ کے پستان روئی سے بھی زیادہ نرم محسوس ہو رہے تھے شاید وہ نہانے کے ارادے سے ابھی بغیر برا کے گھر کے کام کر رہی تھی۔
عبیرہ کے منہ سے ہلکی سی سسکاری نکلی جسے سن کر میں اپنے لن کو اب ااہستہ آہستہ اس کی گانڈ کی دراڑ میں آگے پیچھے کرنے لگا۔ شاید عبیرہ کو میرے ہاتھ اور لن کی جنبش سے مزہ مل رہا تھا اسی لیے وہ اپنی گانڈ کو اب ہلکا ہلکا ہلانے لگی ۔ کچھ دیر تک ہم دونوں اسی پوزیشن میں ایک دوسرے کو مزہ دیتے رہے پھر عبیرہ کو میں نے کمر کے بل لیٹا کر خود اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ عبیرہ میری کسنگ کا رسپانس فوراً دینے لگی۔ عبیرہ کسنگ کے دوران میرے سر کے بالوں کو سہلا رہی تھی۔میں نے اپنی زبان اس کے ہونٹوں پر رکھی تو اس نے اپنے ہونٹ کھول دئیے میں اس کے منہ میں اپنی زبان کو داخل کردیا۔
میری زبان اس کی زبان سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی وہ خاموشی سے میری زبان کی کارستانی کو سمجھ رہی تھی پھر آہستہ آہستہ اس کی زبان بھی حرکت میں آ گئی۔ میرے منہ میں جمع ہوچکے تھوک کو اب عبیرہ کے منہ میں جانےکیلئے راستہ مل چکا تھا اسی وجہ سے میری زبان اب عبیرہ کی زبان کو گیلا کرنے لگی تھی۔
کسنگ کو کچھ دیر کے بعد روک کر میں نے اپنے ہونٹوں کو عبیرہ کی گردن پر رکھ کر اسے چومنے چاٹنے لگا۔ عبیرہ کی سسکاریاں اور آہیں خالہ کے کمرے کو جاندار بنا رہی تھیں۔ عبیرہ ایک ہاتھ سے میرے سر کو سہلا رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے بیڈ کی شیٹ کو مسل رہی تھی۔
میں آہستہ آہستہ گردن کو چومتا ہوا اب اس کی چھاتی کی طرف نیچے آنے لگا۔ عبیرہ نے کھلے گلے کی گول قمیض پہن رکھی تھی۔ جس وقت کا میں یہاں آیا تھا مجھے عبیرہ کو دیکھ کر بار بار باجی کے مموں کی جھلک یاد آنے لگی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں اس قدر بہک چکا تھا۔
میں نے ایک ہاتھ سے عبیرہ کی کھلی قمیض سے اندر قید ممے کو پکڑ کر جیسے ہی قمیض سے باہر نکالا شاید عبیرہ میرے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے ہی کانپ گئی۔
میں نے جھکے ہوئے ہی اس کے آدھ ننگے ممے کو اپنے منہ میں بھرلیا۔جیسے ہی میرے منہ میں اس کے ممے کا نپل آیا اس کے جسم میں ہلکا سا کرنٹ لگا۔
میں بار بار اس کے دونوں مموں سے انصاف کر رہا تھا وہ بار بار میرے سر کو سہلاتے ہوئے مزے میں ڈوبے ہوئے آہیں بھر رہی تھی۔
میں نے اس کے داہنے ممے کو منہ لگا دیا جیسے ہی میں نے اس کے چھوٹے سے نپل کو اپنی زبان سے چاٹا اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کے پکڑ کر اپنے ممے پر دبایا. بس یہ اجازت ملنے کی دیر تھی میں وحشیوں کی طرح اس کے مموں پر ٹوٹ پڑا. چوس چوس کراس کے ممے کو نشان زدہ کردیا
عبیرہ لذت سے سسکاریاں لے رہی تھی اور میرے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر شلوار سے ہی اس کی پھدی پر رکھا تو وہ فل گیلی ہو رہی تھی میں نے پیار سے شلوار کے اوپر سے ہی اس کو تھوڑا سا سہلایا تو وہ مچلنے لگی میں نے اس کو بیڈ پر لٹایا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کی شلوار کھینچ کر اتار دی اس نے ٹانگیں جوڑ لیں تا کے اپنی پھدی کو چھپا سکے.
میں نے اپنے کپڑے اتارے اور اس کی ٹانگوں کے آ کر بیٹھا اور اس کی قمیض پکڑ کر اوپر کرنے لگا اس کے کمر اٹھا کر مجھے قمیض نکلنے دی۔میرا لن پھن پھنا رہا تھا۔
میرے لن کی حالت دیکھ کر عبیرہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ میں نے عبیرہ کی شرم کو محسوس کرتے ہوئے دوبارہ سے عبیرہ کے نازک جسم کے اوپر آتے ہوئے اس کی تھوڑی کو چوم کر ایک ہاتھ اس کا روئی کے مانند ممے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر نرمی سے دبانے لگا۔ میرے ہاتھ کی چھیڑ چھاڑ سے کچھ ہی دیر میں عبیرہ کے منہ سے پھر سے سسکاریاں نکلنے لگیں۔
میں اس کی سسکاریاں سن کر مزے میں اس کی گردن کو چومتا ہوا اس کے مموں کی طرف آیا اور براہ راست اس کے دوسرے ممے کو اپنے منہ میں بھر کر چوسنے چاٹنے لگا۔
میرا لن ننگی پھدی پر بار بار اوپر نیچے ہوکر رگڑ کھا رہا تھا عبیرہ کی پھدی سے نکلنے والے پانی سے میرا لن ہلکا ہلکا گیلا ہورہا تھا۔
میں اس کے مموں سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے خود بھی عبیرہ کی طرح مزہ لے رہا تھا۔ شاید میرے لن کی رگڑ یا لن کی گرماہٹ کو محسوس کرتے ہوئے اس کی پھدی نے مزید تیزی سے رسنا شروع کردیا تھا۔
میں ایک لمحے کو رک کر اپنے لن کے ٹٹوں کو گیلا ہونے کی وجہ جان لینے کے بعد میں نے ایک ہاتھ سے اس کا ایک مما دوبارہ پکڑ لیا اور اس کو پیار سے گولائی میں دبانے لگا۔
جذبات کی شدت تھی میں بھی عبیرہ کی طرح اب اور صبر نہیں کر سکتا تھا. میں نے لن کا ٹوپا اس کے بند پھدی کے اوپر رکھا اور اس کو رگڑنے لگا. ٹوپے سے اس کے دانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا اس کی کنواری پھدی اپنا رس بہا رہی تھی جس سے میرا ٹوپا گیلا ہو چکا تھا میرا پری کم اور عبیرہ کی پھدی کا مکس ہو کر تار بنا رہا تھا. آہستہ سے میں نے اپنا ٹوپا اس کی پھدی کے لبوں پر رکھا اورعبیرہ کی طرف دیکھا۔
شاید عبیرہ بھی میری آنکھوں میں موجود سوال کو جان کر بول پڑی: میں جانتی ہوں کہ میں تمہاری دلہن بن نہیں سکتی ۔۔۔ لیکن میری روح بچپن سے تمہارے نام ہوچکی تھی۔۔۔ میرے ادھورے پن کو دور کر دو۔۔ مجھے اپنا بنا لو ۔۔۔ پلیز۔۔۔
عبیرہ کی حسرت اور اس حد تک پہنچ جانے پر اب رکنا کون چاہتا تھا اب تو عبیرہ کی اجازت نے میرے دل کے سوالوں کو ختم کردیا تھا۔
میں نے ایک ہاتھ سے ٹوپا پکڑا پھر اس کی پھدی کے لبوں پر رکھا تھوڑا سا جھک کر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور نیچے سے ہلکا سا زورڈالا تو ٹوپا اندر گیا تو وہ مچلی میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا.
میرا لن اس کی جھلی کو پھاڑتا ہوا اندر بچا دانی میں جا کر پھنس گیا. عبیرہ نے ایک زوردار چیخ ماری جو میرے منہ میں ہی گونج کر رہ گی. عبیرہ میرے نیچے مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہی تھی میں لن پورا اندر کر کے وہیں رک گیا تھا مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا لن کسی برقی شکنجے میں پھنسا ہوا ہو. پھدی کی نرمی گرمی اور گیلاپن کے باوجود میرا لن عبیرہ کی پھدی میں ایسے جکڑا ہوا تھا جیسے کسی نے اپنی مٹھی میں لے کر دبایا ہو. کچھ دیر تڑپنے اور آنسو بہانے کے بعد عبیرہ ساکت ہوئی تو میں نے دوبارہ اس کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے آتشی گلابی مموں کو سہلانے اور دبانے لگ پڑا پھر اس نے منہ سے سسکاریاں نکلنا شروع ہو چکی تھیں میں نے لن کو آہستگی سے باہر کو نکالا اور پھر اندر کیا تو عبیرہ کے منہ سے پھر ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی میں نے دیکھا تو میرا لن سرخ رنگ کا ہو رہا تھا اور نیچے چادر پر خون کا بڑا داغ بنا ہوا تھا(عبیرہ نے سچ میں خود کو میرے لیے سنبھال رکھا تھا اور آج اس نے خود کو مجھے سونپ دیا تھا)
جب کے عبیرہ کے پھدی سے خون بہ کر اس کی گا نڈ سے ہوتے ھوے نیچے جا رہا تھا جس وجہ سے اس کی گا نڈ بھی لال ہو رہی تھی چھوٹا سا گا نڈ کا سوراخ کبھی کھل رہا تھا کبھی بند ہو رہا تھا اس کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا میں اس کے دندوں پر پیار سے انگلی پھیری عبیرہ نے گا نڈ کا سوراخ بھینچ لیا.
میں نے پھدی میں لن اندر باہر کرنے کی سپیڈ تھوڑی تیز کی اور اس کی دونوں ٹانگوں کو اس کی کمر سے پکڑ کر ہوا میں کر لیا اور تیزی سے لن اندر باہر کرنے لگا. عبیرہ درد اور مزے کی شدت سے چلا رہی تھی. میرا لن پورا اندر باہر ہو رہا تھا میں اس کو کمر سے پکڑ پکڑ کر اپنے لن پہ مار رہا تھا. جھٹکوں کی وجہ سے عبیرہ کے ممے سخت ہونے کے باوجود آگے پیچھے ہو کر میری وحشت کو بڑھا رہے تھے. عبیرہ اب خود اپنی پھدی کو اگے ہو ہو کر میرے لن پر چڑھا رہی تھی. چند منٹ بعد ہی عبیرہ کو جھٹکے لگنے شروع ہو گے اور اس نے کمر پھر کمان کی طرح کر کے جھڑنا شروع کر دیا اور میرا لن اس کے فل اندر تھا جیسے ہی وہ چھوٹنا شروع ہوئی اس نے پھدی بھینچ لی جس سے میرا لن جو پہلے ہی اس کی پھدی کی سختی سے درد کر رہا تھا ایسے ہو گیا جیسے ٹوٹنے والا ہوایسی گرمی اور تپش کی تاب نہ لا کر میرا لن بھی اس کی بچہ دانی میں پچکاریاں مارنے لگ گیا. میرا اتنا پانی نکل رہا تھا جتنا کبھی پہلے نہیں نکلا تھا.
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
باجی کا مسلسل اپنا جسم مجھے دیکھانا مجھے پزل کررہا تھا۔ لیکن میں خونی رشتوں کی انجانی ڈور سے بندھا ہوا تھا ۔ میں اپنی حد کو پھلانگنا چاہ تو رہا تھا لیکن چاہتے ہوئے بھی اپنی ہی بڑی بہن کو اپنی ہوس کا شکار نہیں بنا پا رہا تھا۔ سکول میں آج تیسرا دن (عبیرہ کے ملن کے بعد) تھا، صاعقہ مجھ سے بولی: کیا تم میرے ساتھ سیکند فلور پر چل سکتے ہو؟
میں: کیوں نہیں۔۔۔ چلو
صاعقہ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی: تمہیں بس ، ایک مرتبہ جھوٹ بولنا پڑے گا۔۔۔
میں: کیا مطلب؟
صاعقہ:یو۔۔۔ نو۔۔۔ میری کزن یہاں پڑھتی ہے۔۔۔ اس نے چیلنج کیا ہے کہ سکول میں ابھی ۔۔۔ کوئی بھی کہہ دے کہ میں اس کی گرل فرینڈ رہی ہوں۔۔۔ تو۔۔۔ وہ۔۔
اوپر سے کسی نے آواز دی: صاعقہ ۔۔۔ جلدی آو۔۔۔
ہم دونوں تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیکنڈ فلور پر پہنچ گئے۔ سب سے آخری کلاس روم میں ، جہاں میں اور تانیہ کافی مرتبہ چدائی کا مزہ اٹھا چکے تھے اسی کے باہر کچھ لڑکیاں جمع تھیں۔ ہم بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔
صاعقہ: یہ وہی ہے۔۔۔
سب لڑکیاں مجھے دیکھ کر ہنسنے لگیں جس کیوجہ سے مجھے ہلکا سا غصہ تو آیا لیکن خاموش رہا ایک لڑکی بولی: یہ تو تانیہ کا بوائے فرینڈ ہے یار۔۔۔
ایک او ر لڑکی بولی: ہاں۔۔۔ یار۔۔۔ اسے تو تانیہ کے ساتھ کافی مرتبہ دیکھا ہے ہم نے
صاعقہ: اس نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔۔۔ پھر۔۔۔
صاعقہ کی بات ایک اور لڑکی نے کاٹی، اس نے کالے رنگ کی عینک (گلاسز) پہن رکھے تھے، وہ بینچ سے اتر کر صاعقہ سے بولی: اس نے پہلے تانیہ کے جسم سے مزہ اٹھایا پھر تجھ سے، اور آج کل۔۔۔ جنا ب کیا کر رہے
صاعقہ آگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے: ایک لفظ اور مت نکالنا۔۔۔ بس
وہ پھر سے بولی: جناب گرل فرینڈ کی آسامی خالی ہوتو۔۔۔
صاعقہ نے ایک زوردار تھپڑ اس کے چہرے پر لگاتے ہوئے بولی: بولا تھا مزید بکواس نہ کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاعقہ کینٹن میں میرے سامنے بیٹھی ہوئی اپنے سر کو تھامے ہوئے تھی۔ میں اس کے چہرے کو پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ صاعقہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کرسی سے اٹھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کینٹن سے نکل کر سکول کے گراونڈ میں لے آئی جہاں اس وقت کافی رش تھا لیکن وہ مسلسل چلتے ہوئے گراونڈ کے اس حصے میں مجھے لے آئی جہاں کسی کسی جگہ پر لو برڈز کسنگ کررہے تھے۔
صاعقہ: مجھے اپنی گرل فرینڈ بنا لو ۔۔۔
میں بس حیرت سے اسے دیکھے جا رہا تھا: کیا مطلب؟
صاعقہ: اب تو عبیرہ بھی نہیں ہے۔۔۔
میں: مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔
صاعقہ:۔ اچھا ۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ میں صاف صاف بات سمجھاتی ہوں۔۔۔
میں: وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔ چلو
صاعقہ: نہیں ۔۔۔ یہیں ٹھیک ہے
میں نیچے بیٹھتے ہوئے: سب کچھ سچ بولنا۔۔۔
صاعقہ: میں آٹھویں میں تھی جب اس کے بھائی نے مجھے لائن دینا شروع کی، میں خود بھی لاابالی عمر میں محبت کی لہر میں بہتی چلی گئی، جب یہاں داخل ہوئی تو یہ مجھے بھابھی کہہ کر مخاطب کرتی رہی۔ پھر ایک دن اس کا بھائی بھی مجھ سے پلٹ گیا اور اس نے مجھے بدنام کرنا شروع کردیا۔
صاعقہ اب روتےہوئے بولی: میں بیشک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہوں عثمان۔۔۔ پھر بھی مجھے بھی اپنی عزت پیاری ہے۔۔۔ جب اس نے اپنی کلاس فیلوز اور ہماری کلاس فیلوز کو یہ کہا کہ صاعقہ کا کیریکٹر لوز ہے۔ وہ ورجن نہیں ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا، میں نے کہہ دیا کہ تم میرے بوائے فرینڈ ہو، جیسے اس کا بوائے فرینڈ شہریار ہے۔ (شہریار دہم کلاس کا ہی سب سے زیادہ بگڑا ہوا لڑکا تھا)
صاعقہ: جب میں نے یہ بات کہہ دی، میں نہیں جانتی قسم سے۔۔۔ کہ ۔۔۔ اس وقت کیسے میرے منہ سے صرف تمہارا نام نکلا، لیکن بعد میں انہوں نے عبیرہ سے لازمی یہ پوچھنا تھا کیونکہ سب جانتی ہیں کہ عبیرہ تمہاری کزن سسٹر ہے۔ اس لیے میں نے عبیرہ کو فوراً بتا دیا۔ عبیرہ نے پہلےغصہ کیا لیکن بعد میں مجھے حوصلہ دیا۔
صاعقہ خاموش ہوچکی تھی میں بس صاعقہ کی باتیں سن کر اس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اس لڑکی نے اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی پھنسوا دیا ہے۔
میں اس کی ہچکیوں کی آواز سن کر اپنی سوچ سے باہر نکلا اور اس کے سر کو سہلاتے ہوئے بولا: میں بس یہی جانتا ہوں کہ تم نے ایک دوست سے اپنی عزت بچانے کیلئے مدد مانگی ہے۔ جب بھی تمہیں ایسا لگے کہ تمہاری عزت نفس خطرے میں ہے، مجھے یاد کرنا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں گا۔۔۔
یہ الفاظ میرے منہ سے جانے انجانے میں ادا ہوچکے تھے۔ میں خود بھی پیشمان تھا۔ صاعقہ میری بات سن کر پھرسےتیزی سے روتے ہوئے میرے سینے سے لگ چکی تھی۔ میں بس اسے چپ کروا رہا تھا۔